Dastekaram https://dastekaram.org Awakening for human rights Tue, 03 Oct 2023 11:15:12 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.6.2 معذور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد: مغالطے اور حقائق https://dastekaram.org/blog-1/?utm_source=rss&utm_medium=rss&utm_campaign=blog-1 Wed, 26 Jul 2023 08:35:31 +0000 http://fastwpdemo.com/newwp/purehearts/?p=803 معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور گھٹن نے پرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ پرتشدد واقعات کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ اس میں چوری ڈکیتی، جنسی و […]

The post معذور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد: مغالطے اور حقائق first appeared on Dastekaram.

]]>
معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور گھٹن نے پرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ پرتشدد واقعات کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ اس میں چوری ڈکیتی، جنسی و جسمانی زیادتی بھی شامل ہے اور گھریلو تشدد بھی شامل ہے۔ عام طور پر تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس پر ظلم ہوتا ہے اسے ہی ڈرایا جاتا ہے کہ تھانے کچہری جانے سے بدنامی ہوگی اور اس طرح ظالم کو مزید ظلم کرنے کی تقویت ملتی ہے۔

مختلف اداروں اور پولیس کی طرف سے دی جانے والی ہیلپ لائن پر اب کسی حد تک مظلوم آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ پرتشدد واقعات میں سب سے آسان ٹارگٹ کمزور طبقہ ہوتا ہے اور خواتین و بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ معذور خواتین اور لڑکیاں مزید آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں جن کی نہ تو کسی فورم پر آواز پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی وہ اپنا دکھ کسی سے شیئر کر سکتی ہیں۔

معذور بچیوں کا سب سے پہلے تو والدین کی طرف سے استحصال ہوتا ہے اور انہیں دوسرے صحت مند بہن بھائیوں کی طرح تعلیم و صحت کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ وہ مزید محرومی کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔ ایک غلط تاثر ہے کہ معذور بچی کی شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بچے بھی معذور پیدا ہوں گے ۔ معذور بچی کو جائیداد کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ والدین کے گزر جانے کے بعد بہن بھائیوں کے سہارے ہوجاتی ہے اور برابر کی حصہ دار ہونے کے باوجود علاج معالجے، دیکھ بھال اور دیگر سہولیات سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ سب پر بوجھ تصور کی جاتی ہے۔

اوباش اور با اثر جنسی درندوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہے لیکن نہ کسی کو بتا سکتی ہے، نہ کوئی سنتا ہے اور نہ ہی کوئی یقین کرتا ہے۔ ابھی جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ایک خبر آئی ہے کہ چنیوٹ کے علاقے ساڑمراد والا میں با اثر زمیندار کئی ماہ سے ذہنی معذور بچی سے زیادتی کر رہا تھا۔ بچی کا والد اسی زمیندار کے پاس مزارعہ تھا اور ماں اسلام آباد میں کسی کے گھر کام کرتی ہے۔ جب والد کام پر چلا جاتا تو زمیندار گھر آ کر بچی سے زیادتی کرتا۔

گزشتہ روز جب ماں گھر آئی تو بچی کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر ہسپتال لے کر گئی تو وہاں پتہ چلا کہ بچی حاملہ ہے۔ اسی طرح کچھ روز قبل سرگودھا کے نواحی گاؤں میں 13 سالہ گونگی بہری بچی سے زیادتی کا کیس سامنے آیا۔ بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ پولیس نے زیادتی کی بجائے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کر کے ملزم کا ساتھ دیا ہے اور مبینہ طور پر پولیس صلح کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ اس سے پہلے گوجرانوالہ میں ایک گونگی بہری لڑکی سے مسلسل زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا جس میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا اور دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اس سے پہلے متاثرہ بچی کو 6 ماہ کا حمل بھی ضائع کرا چکا ہے۔

چار ماہ پہلے اوکاڑہ سے ایک دردناک اور افسوسناک واقعہ سامنے آیا جس میں ایک کمسن معذور بچی سے زیادتی کی گئی اور جب بچی کی والدہ تھانے میں درخواست لے کر گئی تو تفتیشی افسر نے رشوت مانگ لی۔ جب میڈیا پر آواز اٹھی تو وزیراعظم نے نوٹس لیا اور ڈی پی او نے تفتیشی کو معطل کر دیا اور انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ تین ماہ قبل اگست میں لاہور کے علاقے ہربنس پورہ میں ملزم 15 سالہ معذور بچی کو ورغلا کر دکان میں لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔

سات ماہ قبل مظفرگڑھ میں با اثر زمیندار کے بیٹے نے معذور بچی کو گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ ناجائز تعلقات نہ رکھنے پر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ یہ چند واقعات ابھی چند ماہ کے ہیں اور ایسے لاتعداد واقعات گزشتہ کئی مہینوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔ معذور بچیوں پر ہونے والے تشدد اور زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے اور ملزمان کو کڑی سزا دینے کے لئے خصوصی توجہ اور قوانین کی ضرورت ہے۔

عام طور پر تاثر یہی ہے کہ معذور لڑکی یا خاتون کو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ پچھلے چھ ماہ کے رپورٹ ہونے والے واقعات چیخ چیخ کر معاشرے کی بے حسی، قانون کی عدم دستیابی، حکومت کی لاپرواہی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت کا چہرہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم بہت پرامن ہیں، ہمارے پاس قانون ہے، ہمارے پاس سیکیورٹی ہے لیکن معذور خواتین اور بچیاں بھی جہاں محفوظ نہیں ہیں وہاں محض نعروں اور دعووں سے ہم دنیا کے سامنے اچھے نہیں بن سکتے۔

The post معذور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد: مغالطے اور حقائق first appeared on Dastekaram.

]]>
معذور خواتین کے لئے کرونا ویکسین کی اہمیت https://dastekaram.org/blog-2/?utm_source=rss&utm_medium=rss&utm_campaign=blog-2 Tue, 20 Jun 2023 06:04:42 +0000 http://dastekaram.org/?p=4941 کرونا نے پوری دنیا کے معمولات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ مزدور سے انڈسٹری مالکان تک، ریڑھی بان سے بڑے تاجران تک زندگی کا ہر شعبہ شدید […]

The post معذور خواتین کے لئے کرونا ویکسین کی اہمیت first appeared on Dastekaram.

]]>
کرونا نے پوری دنیا کے معمولات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ مزدور سے انڈسٹری مالکان تک، ریڑھی بان سے بڑے تاجران تک زندگی کا ہر شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔ شروع میں بے یقینی اور مایوسی کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ ہر بندہ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں بارے شدید پریشان ہوا۔ کاروبار ٹھپ گئے، ملازمت پیشہ افراد گھروں میں بیٹھ گئے، بچوں کے سکول کالجز بند ہو گئے اور ڈپریشن والا ایک عجیب ماحول ہر گھر میں نظر آنے لگا۔

ابھی کرونا سے لڑنا او ر ڈرنا جاری تھا کہ یہ خبر تازہ ہوا کا ایک جھونکا بن کر سامنے آئی کہ کرونا کی ویکسین بن گئی ہے۔ کچھ ماہ بعد جب پاکستان میں بھی ویکسین آئی تو آبادی کے مقابلے میں ویکسین کی تعداد انتہائی کم تھی اور لگ رہا تھا کہ لوگوں کا ویکسی نیشن سنٹرز پر اس قدر رش لگ جائے گا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ بہت کم لوگوں نے ویکسین کو خوش آمدید کہا اور باقی سب مختلف افواہوں کی وجہ سے اس سے دور بھاگنے لگے۔

حکومت نے ویکسی نیشن سنٹرز کی تشہیر کی اور سہولیات کے ساتھ ساتھ عوام کو ویکسین لگوانے کے لئے آمادہ کرنے کے لئے مختلف سختیاں بھی کیں جس میں ہوائی جہاز، پبلک ٹرانسپورٹ، عوامی جگہوں پر داخلے کی بندش شامل تھی لیکن اس کے باوجود عوام کی دلچسپی انتہائی کم رہی ہے۔ اس تمام صورتحال کے دوران ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو آگاہی اور سہولیات سے کوسوں دور ہے اور اس کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کیے گئے ہیں۔

ایسی لڑکیاں اور خواتین جو کسی جسمانی معذوری کا شکا ر ہیں وہ زندگی کے دیگر معاملات کی طرح کرونا ویکسی نیشن کی سہولت سے بھی دور ہیں۔ سب سے پہلے تو ان تک یہ آگاہی ہی نہیں کہ کرونا کی ویکسی نیشن ہو رہی ہے اور اگر انہوں نے سن بھی لیا ہے تو ویکسی نیشن سنٹرز تک پہنچنا ان کے لئے بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ پنجاب حکومت نے چھ ماہ قبل ایک سہولت کا آغاز کیا تھا کہ اگر کوئی معذور ہے یا ویکسی نیشن سنٹر تک نہیں آ سکتا تو وہ 1033 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر رجسٹریشن کرا سکتا ہے اور پھر محکمہ صحت کی ٹیم اس کے گھر جاکر ویکسین لگا آئے گی۔ لیکن گھروں میں بیٹھی معذور لڑکیاں اور خواتین اس سے مستفید نہ ہو سکیں کیونکہ ایک طرف تو گھر کے صحت مند افراد نے ویکسی نیشن کو سنجیدہ نہیں لیا ہے اور ویکسین نہیں لگوائی ہے تو ان کی ترجیحات میں گھر کی خواتین اور خاص طور پر معذور خواتین تو شامل ہی نہیں ہیں کہ انہیں کرونا جیسی موذی وبا سے بچانے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔

دوسرا معذور خواتین تک یہ پیغام پہنچ ہی نہیں سکا ہے کہ حکومت ایسی کوئی سہولت دے رہی ہے۔ ان معذور خواتین کی اکثریت کی تو ابھی تک کوئی پہچان ہی نہیں ہے، ان کے معذوری سرٹیفیکیٹ ہی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے مخصوص شناختی کارڈ بن سکے ہیں جس سے ان کا ریکارڈ گورنمنٹ کے پاس ہو گا تاکہ وہ ان تک پہنچ سکیں۔ معذور افراد کی ویکسی نیشن کے حوالے سے پوری دنیا میں اب سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2020 کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتیں معذور افراد تک صحت عامہ سے متعلق انفارمیشن کو یقینی بنائیں اور معذور افراد کے لئے مناسب اقدامات کریں۔

معذور افراد کے لئے کام کرنے والے نیٹ ورکس کو ادارہ جاتی تربیت اور خطرات سے نمٹنے کے لئے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ معذور افراد کی ضروریات کو شامل کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ ویکسی نیشن میں معذور افراد کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک، عدم مساوات اور رکاوٹیں نظر آئی ہیں انہیں فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے کہا گیا کہ وہ ایک واضح اور جامع بیان دیں کہ عالمی و قومی ویکسی نیشن کے پلان میں معذور افراد کی ویکسی نیشن کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا ویکسی نیشن کے دوران پوری دنیا میں معذور افراد کو مشکلات کا سامنا رہا ہے اور وہ اس سے نبردآزما ہونے کی پلاننگ بھی کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی صرف معذوروں کے لئے ویکسین کے کوٹے کے اعلانات اور دیگر سہولیات کے اعلانات کی بجائے عملی طور پر اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو ایک ایک گھر اور گلی محلے تک جاتی ہیں ان کی خدمات حاصل کرتے ہوئے گھروں میں موجود معذور خواتین اور لڑکیوں تک کرونا ویکسین کی سہولت پہنچانی ہوگی۔

حکومت کے پاس مردم شماری کے دوران کافی حد تک معذوروں کا ڈیٹا آ چکا ہے۔ اسی ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے معذور افراد کے شناختی کارڈ بنوائے جائیں اور انہیں کرونا ویکسین کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم و بنیادی ضروریات کی تمام سہولیات پہنچانی چاہیے۔ اعلانات اور اشتہارات سے نکل کر عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ معذور خواتین جن تک معلومات کی رسائی نہیں ہے ان کے لئے خصوصی اقدامات این سی او سی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے۔ گھروں میں بیٹھی معذور لڑکیوں اور خواتین کا مکمل طبی معائنہ کراتے ہوئے فوری طور پر ویکسی نیشن کرانی چاہیے ورنہ وہ نظرانداز رہتے ہوئے استحصال کا شکار رہیں گی اور اس کی ذمہ دار کمیونٹی و حکومت ہوگی

The post معذور خواتین کے لئے کرونا ویکسین کی اہمیت first appeared on Dastekaram.

]]>
اسلام آباد کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا https://dastekaram.org/blog-3/?utm_source=rss&utm_medium=rss&utm_campaign=blog-3 Sat, 20 May 2023 06:07:22 +0000 http://dastekaram.org/?p=4943 کرونا نے سکولز کالجز کے بچوں کی تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے اور اسلام آباد میں رہی سہی کسر اب صدر پاکستان کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 نے نکال […]

The post اسلام آباد کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا first appeared on Dastekaram.

]]>
کرونا نے سکولز کالجز کے بچوں کی تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے اور اسلام آباد میں رہی سہی کسر اب صدر پاکستان کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 نے نکال دی ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے 390 سرکاری سکولز کو تالے لگے ہوئے ہیں اور لگ بھگ دو لاکھ سٹوڈنٹس گھروں میں بیٹھے ہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں تمام سکولز میں مڈٹرم امتحانات شروع ہوتے ہیں 30 نومبر کو والدین اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر آتے ہیں لیکن دس بجے کے قریب پیغام ملتا ہے کہ اپنے بچوں کو لے جائیں سکول میں چھٹیاں ہو گئی ہیں۔

والدین پریشان ہو جاتے ہیں کہ خدانخواستہ کوئی مسئلہ بن گیا ہے یا دوبارہ سے کرونا آ گیا ہے لیکن پتہ چلتا ہے کہ بلدیات بلدیات کھیلتی حکومت کو ایک نیا جذبہ جاگا ہے اور آرڈیننس کے ذریعے 33 خواص کے سکولز کو چھوڑ کر 390 عوام کے سکولز کو مئیر اسلام آباد کے زیرانتظام کر دیا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا نظام لوکل گورنمنٹ کے زیرانتظام ہے اور بہت کامیابی سے چل رہا ہے لیکن ہمارے ہاں تو بلدیات کو ہر حکومت نے سیاسی نظام میں اچھوت سمجھا ہے اس لئے یہاں راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے لاکھوں بچوں کے مستقبل سے کھیلنا انتہائی خطرناک اور قابل تشویش ہے۔

اسلام آباد میں 423 سرکاری سکولز و کالجز میں سے 33 کو بہت پہلے ہی اشرافیہ کے لئے الگ کر لیا گیا تھا جہاں بہت ہی شاندار سہولیات ہیں اور ان مخصوص ماڈل کالجز کا بجٹ فی کالج ایک سے ڈیڑھ کروڑ سالانہ ہے۔ انہیں ماڈل کالجز کا نام دیا گیا ہے اور یہاں نرسری سے سیکنڈ ائر تک کلاسز لگتی ہیں۔ دوسری طرف باقی 390 سکولز غریب لوگوں کے بچوں کے لئے ہیں اور یہاں فی سکول سالانہ نان سیلری بجٹ تین سے ساڑھے تین لاکھ ہے جس سے پورا سال بجلی، واش رومز، سٹیشنری و دیگر اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں اور ہر سکول میں ایک ہزار سے پندرہ سو طالب علم پڑھ رہے ہیں۔

اساتذہ کا مطالبہ تھا کہ بڑے افسران اور سیاستدانوں کے بچے انہی سکولز میں پڑھتے ہیں جہاں بجٹ کروڑوں میں ہے اس لئے انہیں سازش کے تحت آرڈیننس لانے سے پہلے الگ کیا گیا اور جو سکولز پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہیں انہیں ایک ایسے مئیر یا بلدیاتی نظام کے زیرانتظام کر دیا گیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور موجودہ حکومت پنجاب اور وفاق کے بلدیاتی سیٹ اپ سے پہلے دن سے ہی نالاں ہے اور آئے روز نئی قانون سازی اور آرڈیننس کے ذریعے چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے اور عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو گھر بھیجتی رہی ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ 390 سکولز کے ٹیچرز کو اپنی تنخواہوں کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ انہیں منسٹری سے ملنی ہے وہ سراپا احتجاج صرف اس لئے ہیں کہ اگر سکولز لوکل گورنمنٹ کے زیرانتظام دینے ہی ہیں تو تمام 423 سکولز کو دیا جائے تاکہ جہاں نصاب یکساں ہے، ضلعی حدود ایک جیسی ہے، ٹیچرز ایک جیسے ہیں وہاں مخصوص 33 سکولز کو الگ رکھنا اشرافیہ کی سازش ہے جس کا یقیناً عمران خان کو پتہ نہیں ہو گا ورنہ وہ ایک جگہ پر ایک ہی منسٹری کے نیچے سرکاری سکولز کے دو الگ الگ نظام نہ چلنے دیتا۔ دوسرا اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ تمام سکولز کے بجٹ کو ایک جیسا کیا جائے کیونکہ جہاں ایک سکول کا بجٹ ڈیڑھ کروڑ اور اس جیسے دوسرے سکول کا بجٹ تین لاکھ ہو تو وہاں کیسے ایک جیسی تعلیم و سہولیات دی جا سکتی ہیں۔

اسلام آباد کے سرکاری سکولز کی حالت پنجاب کے سکولز سے بہت بدتر ہے۔ 2009 کے بعد آج تک نئی بھرتی نہیں کی گئی ہے جس سے 30 فیصد کے لگ بھگ سیٹیں خالی ہیں۔ سکولز کی عمارتوں کی حالت زار چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ کوئی ان پر توجہ دے۔ دنیا کو جو چہرہ دکھایا جاتا ہے کہ طارق فضل چوہدری اسلام آباد کے سرکاری سکول سے پڑھا ہے وہ انہی چند مخصوص سکولز میں سے کسی ایک سے پڑھا ہے جبکہ باقی 390 سکولز کی حالت قابل رحم ہے۔

ان سکولز سے تو پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع راجن پور اور لودھراں کے سکولز کہیں اچھی حالت میں ہیں۔ آج تک اسلام آباد کے سکولز میں پلے گروپ کے بچوں کے لئے سپیشل کمرے اور سامان نہیں ہے۔ پورا پاکستان یہی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اسلام آباد سہولیات کا گڑھ ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج تک کسی کو خیال نہیں آیا کہ 390 سکولز کے دو لاکھ بچوں کا کیا قصور ہے جنہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ حکومت نت نئے آرڈیننس اور خیالی پلاؤ ترکیبوں کی بجائے سازش کے تحت الگ کیے گئے 33 سکولز کو باقی 390 سکولز کے ساتھ ایک ہی ترازو میں رکھے اور اگر مئیر اسلام آباد کے حوالے کرنے ہی ہیں تو تمام سکولز کریں تاکہ کارکردگی بھی ایک جیسی ہو سکے اور فنڈز کی تقسیم بھی ایک جیسی ہو۔ شفقت محمود اور اسد عمر جیسے سینئر وزراء ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور پچھلے ایک ہفتے سے بند سکولز کو کھلوانے کے لئے کردار ادا کریں۔

The post اسلام آباد کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا first appeared on Dastekaram.

]]>